کراچی میں ایران کے سکبدوش قونصل جنرل حسن نوریان نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ جنوب ایشیا میں طویل البنیاد امن اور علاقائی استحکام کیلئے کام کریں اور دیرینہ مسائل کا مستقل حل نکالیں۔
کراچی میں ڈپلومیٹک کور کے ڈین کا کردار ادا کرنے والے حسن نوریان نے یہ بات بطور قونصل جنرل سکبدوش ہو کر وطن روانگی کے موقع پر کہی۔
پاک بھارت سخت کشیدگی کے دوران ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے دورہ پاکستان اور بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے حسن نوریان نے کہا کہ ایران حکومت بھی اس صورتحال کو قریب سے مانیٹر کررہی ہےاور امید ظاہر کی کہ صورتحال میں بتدریج بہتری آئے گی۔
پاکستان اور بھارت سے تاریخی، ثقافتی اور تجارتی رشتوں کے پس منظر میں حسن نوریان نے کہا کہ ایران اس بات کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا کہ اس صورتحال سے صرف نظر کی جائے۔ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس پیچیدہ صورتحال کےدرمیان اصل میں ہوکیا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ سب سے پہلے پڑوسی اور پھر مسلم ممالک سے اچھے تعلقات کا قیام ہے۔اس لیے پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کیلئے ایران سے جو ممکن ہوا وہ اقدام کیا جائےگا۔ایک وجہ یہ بھی ہےکہ ایران پاکستان ہی نہیں پورے جنوب ایشیا سے اچھے تعلقات چاہتا ہےتاکہ یہ خطہ بھی ترقی کے منازل طے کرے۔
قونصل جنرل حسن نوریان کے دور میں پاک ایران تعلقات میں سفارتی، دفاعی،سیاسی، اقتصادی،تجارتی، تعلیمی، ثقافتی اور لوگوں کے درمیان رابطوں کے فروغ سے متعلق کئی نمایاں پیشرفت ہوئی تھیں۔
حسن نوریان نے جون سن 2021 میں بطور قونصل جنرل کراچی میں سفارتی منصب سنبھالا تھا۔4 ہی ماہ بعد ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے اعلیٰ وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں علاقائی امن کیلئے مل کر کام کرنے اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ ردعمل سے متعلق امور پراتفاق کیا گیا تھا۔
اقتصادی لحاظ سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئی۔ خصوصاً سندھ سے تجارت بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ۔حسن نوریان کے دور میں کراچی میں سولو سنگل کنٹری نمائش ہوئی ہے جس میں نائب وزیر کامرس آئے اور ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے معاہدہ طے پایا۔
اسی عرصے میں چل اگر تہران کے عنوان سے تجارت اور سرمایہ کاری کی کانفنرنس کا بھی انعقاد کیا گیا۔ یہی نہیں تہران چیمبر آف کامرس کا وفد بھی تقریباً ہر سال یہاں آیا۔تاہم اس عرصے میں سب سے بڑی پیشرفت ثالثی کے ذریعے تنازعات ختم کرنے کا معاہدہ تھا جو دونوں ملکوں کے تاجروں کیلئے غیر معمولی سہولت کا ذریعہ بنا۔
حسن نوریان کی کوششوں سے دونوں ملکوں کی جامعات کے طلبہ اور محقیقن کے تبادلے سے متعلق یونیورسٹیوں کے درمیان مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے تاکہ تعلیم اور طب کے شعبے میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھا جاسکے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فارسی کی ترویج کیلئے ایران حکومت اور پاکستان کے درمیان مفاہمت بھی بڑھی۔
ثقافت کو فروغ دینے کیلئے ایران کی زیبائش سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ کراچی میں دلکش ایران کے عنوان سے 3 بار کانفرنس ہوئی جبکہ 2 اقوام ایک ضیافت کے عنوان سے فوڈ فیسٹیول جیسے پروگرام بھی منعقد کیے گئے۔
مختلف شعبوں میں یہ پیشرفت اس حقیقت کے باوجود تھی کہ حسن نوریان نے جب عہدہ سنبھالا تو کچھ ہی عرصے بعد پاکستان میں عام اور پھر ایران میں دو بار صدارتی انتخابات ہوئے۔ عبوری حکومت کے ادوار میں سفارتی اور اقتصادی میدانوں میں پیشرفت سُست روی اور غیر یقینی کا شکار ہوجاتی ہے کیوں کہ عبوری حکومتوں کے پاس اہم فیصلوں کا مینڈیٹ نہیں ہوتا۔
ایرانی قونصل جنرل کا دور وہ عرصہ بھی تھا جب ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بعض موقعوں پر جوار بھاٹا رہا۔پچھلے سال جنوری میں ایران نے پاکستان کی خودمختاری پامال کرتے ہوئے بلوچستان میں پاک ایران سرحد کے قریب علاقہ پر حملہ کیا۔ایران کا دعویٰ تھا کہ کارروائی جنگجو گروپ جیش العدل کےمبینہ ٹھکانے پر کی گئی تھی تاہم اس میں 2 بچے شہید ہوئے تھے۔
پاکستان نے ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان پر میزائل حملے سے جواب دے کر 9 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا۔پاکستان کا ہدف بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ تھی۔ یہ دہشتگردی کے خلاف دونوں ملکوں کا ٹھوس عزم تھا کہ چند ہی روز میں دو طرفہ تعلقات معمول پر آگئے۔ یہ اسی بہتری کی عکاسی تھی کہ آئیڈیاز سن 2024 میں ایران پہلی بار شریک ہوا۔
حسن نوریان ہی کے عہد میں اُس دور کے وزیر خارجہ امیر عبدالہیان نے پاکستان کا 3 روزہ دورہ کیا جس میں وہ خاص طور پر کراچی بھی آئے۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، گورنر سندھ کامران ٹیسوری، وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اور صوبائی کابینہ کے اراکین سے ملے۔ اسی دورے میں کراچی کی اولڈ کلفٹن روڈ کا نام تبدیل کرکے شاہ راہ امام خمینی رکھا گیا۔
یہ دورہ ایران کے شہید صدر آیت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کے 3 روزہ دورہ پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوا جو وزیراعظم شہبازشریف کی خصوصی دعوت پر آئے تھے۔ان کےساتھ کئی اہم وزرا بھی آئے اور اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی 8 یادداشتوں پر دستخط کیے گئے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم دس ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کا عزم کیا گیا۔
یہ اس لحاظ سے غیرمعمولی تھا کہ کئی عشروں بعد کسی بھی ایرانی صدر نے کراچی کا بھی دورہ کیا تھا۔انہوں نے صوبائی قیادت اور بزنس کمیونٹی سے ملاقاتیں کیں اور اس موقع پر گورنر سندھ نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔
حسن نوریان ہی کےدور میں گورنر خراسان بھی بڑے تجارتی وفد کے ساتھ کراچی آئے جبکہ گورنر سندھ نے اہم کاروباری افراد کے ساتھ مشہد کا دورہ کیا۔
کراچی میں ڈپلومیٹک کور کی سربراہی کرنیوالے حسن نوریان نے اس بات پر اظہار تشکر کیا کہ انہیں گورنر سندھ نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی حد درجے تعاون کیا۔پاکستانیوں سے متعلق حسن نوریان نے کہا کہ پاکستانی عوام کھلے دل کے مالک اور فطرتاً سخی ہیں۔
حسن نوریان کیلئے کراچی اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ وہ سن دوہزار کے عشرے میں بھی کراچی میں تعینات رہ چکے ہیں۔ اُسی دور میں ان کا بیٹا امیر علی ایرانی قونصل خانے کے سامنے واقع نجی اسپتال میں پیدا ہوا تھا۔اس طویل اور گہرے تعلق نے حسن نوریان کے گھر میں پاکستانی کھانوں کا رواج بڑھایا۔ آج بھی ان کی اہلیہ گھر میں چلو کباب ہی نہیں ذائقہ دار بریانی بھی بناتی ہیں۔ حسن نوریان نے کہا کہ اب عشروں سے پاکستان کی ثقافت ان کے اپنے گھر کا کلچر بن چکی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے پیغام دیا کہ مغربی دنیا کی سوچ لوگوں کو منقسم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برادر اقوام یا پڑوسی ممالک کے درمیان اختلافات ہوں تو براہ راست مذاکرات کے ذریعے اتحاد، خوشحالی، ہم آہنگی اور استحکام کو فروغ دینا چاہیے۔
حسن نوریان نے کہا کہ عہدے بدلتے ہیں مگر اپنے عوام اور خطے کیلئے ہمارے فرائض دائمی ہوتے ہیں۔بات کا اختتام اردو غزل کے امام میر تقی میر کے اس مصرعہ پر کیا کہ پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔