ہفتہ, جون 7, 2025
ہومبین الاقوامیشام میں نئی صبح، مگر کس کے لیے؟

شام میں نئی صبح، مگر کس کے لیے؟

برسوں کی خانہ جنگی، لاکھوں ہلاکتوں، اور اقتصادی تباہی کے بعد، شام بالآخر بین الاقوامی تنہائی سے باہر نکلتا نظر آ رہا ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کے اچانک خاتمے نے مشرق وسطیٰ میں سفارتی ہلچل مچا دی ہے۔ لیکن کیا یہ قدم واقعی شام میں ایک نئے دور کی نوید ہے یا ایک پرانا کھیل نئے چہروں کے ساتھ جاری رکھنے کی چال؟

سنہ 2024 کے اختتام پر جب بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو شام کی سیاسی فضا میں ایک غیر معمولی خاموشی چھا گئی تھی۔ طاقت کا یہ خلا بہت جلد احمد الشراء کے ذریعے سے پر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہیں ایک متنازع مگر متحرک رہنما کے طور پہ بھی یاد کیا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں جہادی حلقوں سے جُڑے رہے ہیں۔ الشراء کی حکومت نے عبوری آئین نافذ کرتے ہوئے اسلامی شریعت کو قانون کا بنیادی ماخذ قرار دیا تاہم بین الاقوامی سطح پر یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ میری حکومت میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ رہیں گے۔

اسرائیل ، شام سے کیا چاہتا ہے؟

اسرائیل نے شام میں بننے والی نئی عبوری حکومت کے حوالے سے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ واضح الفاظ میں کہا کہ اگر بین الاقوامی برادری شام سے اقتصادی پابندیاں اٹھانا چاہتی ہے تو اس کا انحصار صرف ایک شرط پر ہوگا کہ ایران کی فوجی موجودگی اور اس سے وابستہ ملیشیاؤں کا شام سے مکمل انخلا کیا جائے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ احمد الشراء کی حکومت کو لانے کا مقصد اسرائیل سے ہاتھ ملانا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کا یہ مؤقف صرف ایک سفارتی مطالبہ نہیں بلکہ ایک سیکیورٹی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ برسوں سے اسرائیل شام کے اندر ایرانی تنصیبات، اسلحہ کی منتقلی اور حزب اللہ کی سرگرمیوں کو براہِ راست خطرے کا الزام لگاتا آیا ہے اور تل ابیب کی نظر میں ایران، شام میں اپنی عسکری موجودگی کے ذریعے ایک ایسا فرنٹ کھڑا کر چکا ہے جو مستقبل میں اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن حملے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی قیادت کے لیے شامی سرزمین پر ایران کی فوجی بنیادیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔

پابندیوں کا خاتمہ

23 مئی 2025 کو امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ جنرل لائسنس 25 نے شام پر عائد کئی دہائیوں پر محیط معاشی پابندیاں ختم کر دیں۔ یہ اقدام صدر ٹرمپ کی "نئی مشرق وسطیٰ پالیسی” کا پہلا بڑا مظہر ہے جس میں معاشی پابندیوں کی جگہ سفارتی شمولیت کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ امریکہ کے اعلان کے فوراً بعد یورپی یونین نے بھی یکطرفہ طور پر شام پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھا لی ہیں اگرچہ اسد حکومت سے وابستہ شخصیات پر کچھ پابندیاں بدستور قائم رہیں گی، لیکن بینکنگ، توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبے کھول دیے گئے ہیں۔ یورپی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام شام میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے ضروری تھا اور ساتھ یہ بھی اشارہ دیا گیا کہ علاقائی طاقتوں بالخصوص سعودی عرب، ترکی اور قطر کی طرف سے دباؤ کے بعد یہ فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔

مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -
Google search engine

الأكثر شهرة

احدث التعليقات