جمعہ, جون 6, 2025
ہومبین الاقوامیکیا امریکہ ایرانی جوہری پروگرام کو اپنے لیے خطرے کا باعث سمجھتا...

کیا امریکہ ایرانی جوہری پروگرام کو اپنے لیے خطرے کا باعث سمجھتا ہے؟

ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی میں تازہ بیانات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ایرانی سپاہ پاسداران کے جنرل اسماعیل کوثری نے اعلیٰ رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ جوہری مذاکرات سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی دباؤ کا اصل مقصد ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے فطری حق سے محروم کرنا ہے اور یورینیم کی افزودگی کسی بھی جوہری پروگرام کی بنیاد ہے۔

جنرل کوثری نے جوہری توانائی کے مختلف پرامن استعمالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طب، زراعت، بجلی کی پیداوار اور پانی کی صفائی میں جوہری توانائی اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس کے بدترین استعمال یعنی ایٹم بم کی تیاری پر امریکہ، اسرائیل اور فرانس پر سوال اٹھایا کہ اگر ایٹمی ہتھیار ناقابل قبول ہیں تو یہ ممالک ایسے ہتھیار کیوں رکھتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن رہبر اعلیٰ کی شرعی ممانعت کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا۔ جنرل کوثری نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ایران کے جوہری پروگرام کا آغاز مغربی ممالک کی مدد سے ہوا اور انقلاب سے قبل امریکہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ بوشہر جوہری پلانٹ روس کی مدد سے مکمل کیا گیا جہاں سے ایران آج بجلی پیدا کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہی ممالک جو پہلے ایران کی مدد کرتے تھے آج یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔

جنرل کوثری نے کچھ سابق ایرانی حکام کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جو عارضی طور پر یورینیم کی افزودگی معطل کرنے کے خواہاں تھے اور انہیں "کم ہمت اور غدار” قرار دیا۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی مطالبات اور ایران کی سرخ لائن کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہے اور اس بار مذاکراتی ٹیم 2015 کے معاہدے کی ٹیم سے مختلف حکمت عملی کے تحت کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیم مکمل نگرانی اور حمایت میں ہے تاکہ مسلمہ اصولوں کے تحت مذاکرات جاری رہ سکیں۔

عراقچی نے کیا کہا؟

ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے حسین امیر عبداللہیان کی شہادت کی پہلی برسی کی مناسبت اور شہدائے خدمت کی یاد میں بدھ 21 مئی کو وزارت خارجہ میں منعقد ہونے والی تقریب کے موقع پر ایران اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے پہلے ہی غیر معقول درخواستوں کا جواب دیا ہے اور یہ غیر منطقی بحث بات چیت کو آگے بڑھانے میں مدد نہیں کرتی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا موقف مکمل طور پر واضح ہے۔ یورینیم کی افزودگی کا عمل (معاہدے کے ساتھ یا اس کے بغیر) جاری رہے گا، لیکن اگر فریقین ایران کے پرامن پروگرام کے بارے میں شفافیت کے خواہاں ہیں تو ہم تیار ہیں۔ تاہم، بدلے میں، ہمارے جوہری پروگرام کے بارے میں الزامات کی وجہ سے لگائی گئی جابرانہ پابندیوں کو ہٹانے کے بارے میں بات چیت ہونی چاہیے، اور ان پابندیوں کو ہٹایا جانا چاہیے۔

یہ بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا پانچواں دور آئندہ جمعہ کو ہونے جا رہا ہے۔ امریکی خصوصی ایلچی برائے ایران سٹیو وٹکوف نے سختی سے کہا ہے کہ امریکہ ایران کو اپنی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی کا ایک فیصد بھی کرنے کی اجازت نہیں دے گا، جبکہ ایران نے اس شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہے معاہدہ ہو یا نہ ہو، یورینیم کی افزودگی جاری رہے گی۔

مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -
Google search engine

الأكثر شهرة

احدث التعليقات