21 مئی 2025 کو اسرائیلی فوج نے فلسطین کے مغربی کنارے کے شہر جنین میں ایک بین الاقوامی سفارتی وفد پر "وارننگ شاٹس” فائر کیے۔ اس وفد میں برطانیہ، فرانس، اسپین، اٹلی، پرتگال، چین، روس، مصر اور اردن سمیت 30 سے زائد ممالک کے سفارتکار شامل تھے جو ایک پناہ گزین کیمپ کا دورہ کر رہے تھے۔ اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے یورپی یونین، برطانیہ، فرانس، اٹلی، اسپین اور دیگر ممالک نے اسرائیلی سفیروں سے وضاحت طلب کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وفد نے منظور شدہ راستے سے انحراف کیا تھا تاہم ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گولیاں وفد کے قریب فائر کی گئیں جس سے سفارتکاروں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ دیکھا جائے تو اسرائیل کے بڑھتے غیر انسانی رویوں کی وجہ سے اس کے اتحادیوں نے اسرائیل پر پابندیوں کی دھمکیاں بھی دی ہیں جبکہ برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کرتے ہوئے غزہ کے لیے 4 ملین پاؤنڈ کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے اس سے قبل 1 اپریل 2024 کو اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر فضائی حملہ کیاتھا جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے قدس فورس کے سینیئر کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی، ان کے نائب جنرل محمد ہادی حاجی رحیمی اور دیگر پانچ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیلی عوام کی ایک بڑی تعداد یرغمالیوں کی بازیابی میں ناکامی اور جنگ کے طول پکڑنے پر حکومت کی پالیسیوں سے نالاں دیکھائی دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں تل ابیب، یروشلم اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں جہاں مظاہرین نیتن یاہو سے استعفے اور جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے ان مظاہروں اور بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے جواب میں فوج کو شہروں میں تعینات کیا ہے تاکہ داخلی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے اور مظاہرین کو قابو میں رکھا جا سکے۔ یہ اقدام نہ صرف سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے اہم ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی نیتن یاہو کی حکومت کو مضبوطی فراہم کرتا ہے کیونکہ اسے داخلی مخالفت اور شدید بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے ۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نیتن یاہو اپنی سیاسی بقا کے لیے سخت اقدامات اٹھا رہے ہیں جس میں فوج کی تعیناتی بھی شامل ہے تاکہ وہ عوامی دباؤ کو کم کرتے ہوئے اپنی حکومت کو برقرار رکھ سکے۔