اسرائیل نے تقریباً 3 ماہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد کرم ابو سالم کراسنگ کے ذریعے بمشکل سے پانچ امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔ یہ ٹرکوں میں بچوں کی خوراک ، ادیات اور دیگر بنیادی اشیاء شامل ہیں۔ یہ اقدام بین الاقوامی دباؤ خاص طور پر برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی جانب سے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی دھمکیوں کے بعد اٹھایا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی 2.1 ملین آبادی میں سے تقریباً 5 لاکھ افراد قحط کے دہانے پر ہیں جبکہ 71 ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں امداد کی اجازت نہ دی گئی تو 48 گھنٹوں کے اندر اندر مزید 14 ہزار بچوں کی اموات کا خدشہ ہے۔
اسرائیل کے ان تینوں اتحادی ممالک نے اسرائیل کی غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں سرگرمیوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اور ممکنہ پابندیوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ میں اپنی نئی "شرم ناک” فوجی کارروائیاں بند کرے۔ اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ یہ مشترکہ بیان سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کے لیے "بڑے انعام” کے مترادف ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ نے اسرائیل کی جانب سے محدود امداد کی اجازت کو "ضرورت کے سمندر میں ایک قطرہ” قرار دیا ہے۔ مزید برآں 22 ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں مکمل امداد کی فراہمی بحال کرے اور امدادی تنظیموں کو آزادانہ طور پر کام کرنے دے۔