جمعے کے روز استنبول میں یوکرینی اور روسی نمائندوں کی پہلی بار براہ راست امن مذاکرات کوششیں منظر عام پر آئیں۔ اگرچہ اس مذاکراتی میٹنگ کا دورانیہ مختصر رہا مگر ایک اہم پیش رفت سامنے آئی جس کو جنگ بندی کی طرف پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق مذاکرات کے دوران روس نے مطالبہ کیا کہ یوکرین زاپوریزیا، خیرسون، دونیتسک، اور لوہانسک کے علاقوں سے اپنی افواج واپس بلائے تاکہ تنازع کا خاتمہ ہو جس پر یوکرین نے انکار کرتے ہوئے کہا یہ اس کے لیے قابل قبول نہیں۔
ولودیمیر زیلنسکی نے ان مذاکرات کو نا کام قرار دیتے ہوئے الزام لگایا اور پوتن پر تنقید کی کہ وہ امن کی سنجیدہ کوششوں میں مخلص نہیں کیونکہ مذاکرات میں صدر ولادیمیر پوتن نے شرکت نہیں کی۔
دوسری جانب یوکرین اپنے مغربی اتحادیوں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ روس پر مزید سفارتی اور اقتصادی دباؤ ڈالیں تاکہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔

مذاکراتی میٹنگ میں فریقین نے 1000 قیدیوں کے تبادلے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے جسے جنگ بندی کی اب تک کی اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم فی الحال جنگ کے خاتمے کے فوری آثار نظر نہیں آ رہے کیونکہ دونوں طرف سے جھڑپوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
دی کیف انڈیپینڈنٹ کے مطابق یوکرینی افواج نے کریمیا میں ایک روسی اسلحہ ڈپو پر میزائل حملہ کیا جبکہ روسی افواج نے کوپیانسک شہر پر ڈرون حملہ کیا جس میں ایک شہری کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی۔
روس زاپوریزیا، خیرسون، دونیتسک، اور لوہانسک سے یوکرینی فوجیوں کا انخلا کیوں چاہتا ہے؟
روس ، یوکرین سے ان علاقوں سے فوجی انخلا کا اس لیے مطالبہ کر رہا ہے کیونکہ ستمبر 2022 میں روس نے ان علاقوں کو اپنی ریاست کا حصہ قرار دیا تھا۔
بعد ازاں روس نے ان علاقوں میں ریفرنڈم کروایا مگر اس ریفرنڈم کو آزادانہ یا منصفانہ تصور نہیں کیا گیا کیونکہ یہ تاثر پایا جا رہا تھا کہ وہاں روسی فوج موجود تھی اور لوگ آزادانہ ووٹ نہیں دے سکتے تھے۔

روس نے ان علاقوں کے الحاق کا اعلان کیا مگر اقوام متحدہ اور دنیا کے زیادہ تر ممالک میں اسے قانونی حیثیت نہ مل سکی۔ یوکرین ان علاقوں کو اب بھی اپنا حصہ مانتا ہے۔ روس چاہتا ہے کہ یوکرینی فوج وہاں سے نکل جائے کیونکہ وہ ان علاقوں کو روسی زمین سمجھتا ہے لیکن یوکرین اس سے انکار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں پر شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد جس میں ریفرنڈم اور الحاق کو غیر قانونی تصور کیا گیا ، اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دینے والے 5 ممالک میں روس کے ساتھ شام بھی شامل تھا جو اب امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش سے ابراہیم معاہدے کا حصہ بننے جا رہا ہے۔