اتوار, جون 8, 2025
ہومبین الاقوامیکیا امریکہ کا شام سے پابندیاں ہٹانے کا مقصد ایرانی اثر و...

کیا امریکہ کا شام سے پابندیاں ہٹانے کا مقصد ایرانی اثر و رسوخ کا خاتمہ ہے؟

شام پر عائد امریکی پابندیوں کے حالیہ خاتمے نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی اور سفارتی فضا میں ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ 14 مئی 2025 کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں شام کے عبوری صدر احمد الشراء سے تاریخی ملاقات کے دوران یہ اعلان کیا کہ امریکہ شام پر عائد تمام پابندیاں ختم کر رہا ہے۔

شام کی عبوری قیادت بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ احمد الشراء نے ایران کے اثر و رسوخ سے فاصلے کا عندیہ دیا ہے اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے دعوے کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

یہ ایسے اشارے ہیں جنہوں نے امریکہ کو موقع دیا کہ وہ شام کو اپنے سفارتی دائرے میں لانے کی سنجیدہ کوشش کرے۔ اس کوشش کا سب سے بڑا محرک ابراہیم معاہدہ ہے۔

ابراہیم معاہدہ دراصل امریکہ کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگی کی راہ پر گامزن کر رہا ہے تاکہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے اور شام پر سے پابندیاں ہٹانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

امریکہ کی خواہش ہے کہ احمد الشراء اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرے اور ابراہیم معاہدے کا حصہ بنے تاکہ شام کو مغرب کی حمایت حاصل ہو اور وہ ایرانی بلاک سے نکل کر امریکی خلیجی اتحاد کا حصہ بن جائے۔

صورتحال کے پیش نظر شام کی معیشت برسوں کی خانہ جنگی کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے جس کی وجہ امریکی پابندیاں تھیں جنہوں نے شامی حکومت اور عوام دونوں کو عالمی مالیاتی نظام سے کاٹ دیا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ سعودی دورے پر شہزادہ سلمان اور شامی صدر احمد الشرع کے ہمراہ

اب جب کہ یہ پابندیاں ہٹائی جا چکی ہیں تو بین الاقوامی امداد، سرمایہ کاری، اور کاروباری سرگرمیوں کا ایک نیا دور شروع ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے اور خیال ہے کہ امریکی کمپنیاں بھی شام میں تعمیر نو، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہو سکتی ہیں۔

اس طرح امریکہ ، چین اور روس جیسے ممالک کے اثر کو محدود کر سکتا ہے۔ مجموعی طور پر شام پر سے امریکی پابندیوں کا خاتمہ ایک وسیع تر سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد شام کو بین الاقوامی تنہائی سے نکال کر ایک ایسے سیاسی اور اقتصادی نظام میں شامل کرنا ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرتا ہو ایران سے دوری کا خواہاں ہو اور مغربی طاقتوں کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو۔

تاہم اس عمل کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ احمد الشراء کی قیادت کس حد تک امریکی ارادوں کی ترجمانی کرتے ہوئے داخلی استحکام، شفاف حکومت اور بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بناتی ہے

یہ بھی پڑھیں: ابراہیم معاہدہ کیا ہے؟

ابراہیم معاہدہ ایک تاریخی سفارتی پیش رفت ہے جو مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن، بین الاقوامی تعلقات اور عرب ، اسرائیل تنازع کے دیرینہ بیانیے میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ تسلیم کرنے ، سفارتی، تجارتی، اور سیکیورٹی جیسے روابط قائم کیے اور ایک ایسا راستہ اپنایا جو ماضی کی سخت دشمنی کی جگہ مفاہمت، شراکت داری اور باہمی مفادات اور تعلقات پر مبنی ہے۔

پہلی دفعہ یہ معاہدہ 15 ستمبر 2020 کو امریکہ کی ثالثی سے وائٹ ہاؤس میں طے پایا جہاں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے رہنماؤں نے دستخط کیے۔ بعد ازاں سوڈان اور مراکش بھی اس معاہدے کا حصہ بن گئے۔

بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید بن سلطان النہیان 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی، امریکہ میں ابراہیم معاہدے پر دستخط کی تقریب کے دوران موجود ہیں۔

اس معاہدے کا مقصد صرف سفارتی تعلقات کی بحالی تک محدود نہیں بلکہ ایک بڑے جیو پولیٹیکل منصوبے کا آغاز تھا جس میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا اور اقتصادی و ٹیکنالوجیکل شراکت داریوں کو فروغ دینا شامل تھا۔

ابراہیم معاہدے کا نام تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے مشترکہ جد امجد حضرت ابراہیم کے نام پر رکھا گیا تاکہ اسے بین المذاہب ہم آہنگی اور مشترکہ تاریخ کی علامت کے طور پر پیش کیا جا سکے اور اس معاہدے کو امریکہ نے بین الاقوامی سطح پر اپنی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا۔

خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسے "نیا مشرق وسطیٰ” بنانے کی بنیاد قرار دیا۔ اس معاہدے کے تحت عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی مشن قائم کیے، تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے اور مختلف شعبوں میں تعاون کا آغاز کیا۔

تاہم دوسری جانب یہ معاہدہ تنازعات سے خالی نہیں۔ فلسطینی قیادت نے اس معاہدے کو اپنے نصب العین سے انحراف قرار دیا اور اسے اسرائیل کی ناجائز قبضے کو جواز دینے کی کوشش قرار دیا۔

ان کے مطابق عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر کے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس معاہدے کو ملے جلے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

کچھ ممالک نے اسے امن کی طرف ایک مثبت قدم قرار دیا جبکہ دیگر نے اسے محض ایک اسٹریٹیجک اتحاد کے طور پر دیکھا جو ایران کے خلاف تیار کیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے نے خطے کی سیاست کو نئی جہت دی ہے جہاں مذہب اور نظریے کے بجائے مفادات، معیشت اور سیکیورٹی کو اولین ترجیح کے طور پر مانا جا رہا ہے۔

مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -
Google search engine

الأكثر شهرة

احدث التعليقات