اتوار, جون 8, 2025
ہومبین الاقوامیمشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کی بڑھتی قربتیں

مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کی بڑھتی قربتیں

دوسری مرتبہ کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد یہ ٹرمپ کا پہلا بیرونی دورہ ہے اور وہ اس دورے کو "تاریخی” قرار دے چکے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خطے کو تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ ریاض اور واشنگٹن کے درمیان سکیورٹی، توانائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تزویراتی شراکت داری قائم ہے۔ اس دورے کے دوران صدر ٹرمپ کی سعودی قیادت اور خلیجی ریاستوں کے رہنماؤں سے بات چیت میں دس اہم موضوعات شامل ہوں گے جن میں علاقائی سلامتی، توانائی، دفاع اور اقتصادی تعاون سرفہرست ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتِ حال کے تناظر میں خلیجی شراکت داروں کے ساتھ امریکہ کی تزویراتی شراکت کو مستحکم کرنا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ دورہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ وزارت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہم آہنگی خطے سے باہر کے مسائل کے حل میں بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

دوسری جانب امریکہ میں متعین سعودی عرب کی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کا دیرینہ اتحاد مستقبل کے لیے ایک نئی بصیرت فراہم کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی سرمایہ کاری کی بہ دولت امریکہ میں لاکھوں ملازمتیں پیدا ہو چکی ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات کی گہرائی اور وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے موجودہ دورۂ ریاض کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے شہزادی ریما نے کہا کہ یہ دورہ دنیا میں امن، سلامتی اور خوشحالی کے لیے ایک فیصلہ کن موقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اپنی تیل کے علاوہ دوسری معیشت کو ترقی دے رہا ہے جو اب مملکت کی حقیقی مجموعی قومی پیداوار جی ڈی پی کا 50 فیصد بن چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا اسرائیل اور امریکہ کی دوری کے خدشات بڑھنے لگے ہیں؟

وئیل جوزانسکی، جو اسرائیلی قومی سلامتی کونسل میں خلیجی امور کے ماہر رہ چکے ہیں اور اب تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ "یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت خطے میں اسرائیلی مفادات سے دور ہوتی جا رہی ہے”۔

ان کے مطابق "امریکہ اس وقت خطے میں ایک ایسا منظر نامہ ترتیب دے رہا ہے جس میں لازماً اسرائیل شامل نہیں۔”

اسی حوالے سے بیت المقدس میں قائم اسرائیلی ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ یوحنان پلیسنر نے کہا کہ ٹرمپ کے اسرائیل کا دورہ نہ کرنے کا مطلب دونوں ملکوں کے تعلقات کا خاتمہ نہیں، تاہم یہ ضرور واضح کرتا ہے کہ "ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں، اسرائیل کے نہیں۔”

بعض ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکام نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ٹرمپ اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دورے میں بیت المقدس یا تل ابیب کا بھی رخ کریں گے، لیکن صدر نے خود گزشتہ ہفتے کہا کہ ان کا اسرائیل کا کوئی پروگرام نہیں۔

مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -
Google search engine

الأكثر شهرة

احدث التعليقات